اہداف و اسباق از سورۃ الحج

اہداف و اسباق از سورۃ الحج

مضمون کی فہرست

لفظ  الحج  کا معنی

حج                    Hajj               The Pilgrimage

سورۃ  الحج کا مقام نزول

1۔سورہ حج مشترک مکی ومدنی ہے

2۔اس سورہ میں ایمان ، توحید، انذار، تخویف، بعث ونشور، جزاء قیامت کے منظر، جو ایک مکی سورہ کا اسلوب پیش کرتے ہیں ۔

3۔پھر  وقت ضرورت اذن بالقتال، احکام الحج والہدی، جہاد فی سبیل اللہ کا حکم – جو مدنی ہونے کا ثبوت ہے۔

سورۃ  الحج کے بعض اہداف

1۔قوم کی تعمیر میں حج کا کردار، یہ اس سورت کا ہدف ہے۔

2۔اس سورت میں کئی موضوعات کا تذکرہ ہے، مثلا: قیامت، بعث ونشور، جہاد اور عبادت۔

اس سورت کی یہ خصوصیت ہے کہ:

الف۔ اس کی بعض آیتیں مدینہ میں ناز ل ہوئیں اور بعض مکہ میں۔

ب۔ اس کی بعض آیتیں صبح نازل ہوئیں اور بعض رات کو۔

ج۔ اس کی بعض آیتیں سفر میں نازل ہوئیں اور بعض حضر میں۔

3۔اس میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح انسان سارے کپڑوں سے الگ ہوکر احرام پہنتا ہے بالکل اسی طرح دنیا سے تجرد اور الگ تھلگ ہوکر لباس تقوی اختیار کرے۔

سورۃ  الحج کےبعض موضوعات

1۔قیامت کی ہولناکی کی شدت اور اللہ کے دوبارہ اٹھانے پر دلیل (1-7)

2۔مشرکین کاجھگڑا ،منافقین کی عبادت ، بندوں کے درمیان اللہ کا حکم  اور تمام مخلوقات اللہ کو سجدہ کرتے ہیں (18-8)

3۔قیامت کے دن  کی ہولناکیوں کی شدت  اور بعث بعد الموت پر  اللہ  کی قدرت کے دلائل (17-19)

4۔کفار اور ان کی سزا ، مومنین اور ان کی جزا کا بیان (24-19)

5۔مسجد حرام اور  مشرکین کا اس سے روکنا ، اللہ کے راستے سے روکنا اور حج کرنے کا حکم  (29-25)

6۔شعائر اللہ اور حرمت والی چیزوں کی تعظیم،شرک کے نقصانات اور ذبح کے وقت اللہ کا نام لینے کاحکم (37-30)

7۔مومنین کی طرف سے اللہ کا دفاع ، ان کی مدد ، ان کی صفات کا تذکرہ  اور پہلی مرتبہ قتال کی اجازت(41-38)

8۔سابقہ امتوں کی ہلاکت اور ان کا رسولوں کو  جھٹلانے کا تذکرہ   ،رسولﷺ کی مہم، مومنین اور کافرین کا انجام(51-42)

9۔رسولﷺ کی مہم (49-43)

10۔اہل ایمان اور کافروں کا انجام (56-51)

11۔انبیاء کے تعلق سے شیطان کا موقف اور اس کے سبب سے لوگوں کا مومنین اور کفار میں تفریق  اور ان میں سے ہر ایک کا انجام،اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کا بدلہ،قدرت الٰہی کے مظاہر اور بندوں پر اس کی فضیلت (52-68)

12۔مشرکین سے حجت کرنے میں الٰہی تعلیمات،ان معبودوں کی مثال بیان کی گئی جن کواللہ کے علاوہ معبود بنالیا گیا ، مومنین کے لیے الٰہی تعلیمات (78-67)

سورۃ  الحج کےبعض اسباق

1۔حج قیامت کی یاد دلاتا ہے:کیونکہ سارے افراد ایک جگہ ایک لباس میں سورج کی گرمی میں کھڑے ہوتے ہیں۔

2۔حج یوم بعث کی یاد دلاتا ہے: کیونکہ مزدلفہ میں قیام کے بعد اٹھ کر نماز کےلیے جمع ہونا ہوتا ہے۔

3۔حج جہاد کی یاد دلاتا ہے:کیونکہ اس میں جہاد کی مشق ہے ، وہ اس طرح کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کوچ کرنا رہتا ہے، تھکاوٹ ہوتی ہے اور ساتھ ہی وقت اور جگہ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

4۔حج یاد دلاتا ہے کہ  خالص ایک اللہ کی عبادت کرنی چاہیے:

“أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ” ﴿١٨﴾ (سورۃ الحج)

“کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجده میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی۔ ہاں بہت سے وه بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ﺛابت ہو چکا ہے، جسے رب ذلیل کردے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔”

5۔سورہ  حج کی ابتداء تمام لوگوں  کو اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتے ہوئے ہوئی۔ کیونکہ تقوی بنیاد ہے اس کی عبادت و اطاعت  کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیے۔

6۔دعوت کے اسلوب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ غائب کو واضح کرنے کے لیے حسی دلائل  دیے جاتے ہیں قیامت کی ہولناکی کو واضح کرنے کے لیے ماں کا اپنے بچے سے غافل ہوجانا دودھ پلانے کی حالت میں اور اسقاط حمل ہوجانا ، بغیر  نشہ آور چیز کے نشہ چڑھنا مگر ان کو کمیت اور کیفیت سے قیاس نہیں کیا جاسکتا۔

7۔زلزلہ دنیا میں ہوگا اور یہ تمام  لوگوں پر چھاجائے گا، عینی  دلیل جو دی گئی دودھ پلانے والی ماں ، اسقاط حمل  اور نشہ ہے ۔

8۔ان آیات میں شیطان کی اتباع کرنے سے منع کیا گیا ہے جو کہ گمراہ ہے اور باطل امیدیں دلاتاہے۔

9۔یا ایھا الناس  ان کنتم  فی ریب۔۔  اللہ نے ان آیات  میں بڑے دلائل  و براہین ذکر کیے ہیں  جس کا کوئی  رد نہیں کرسکتے  اور عقلمند  سوائے  ایمان  و تسلیم  کچھ نہیں  کرسکتا  ، جیسے  جنین کے اطوار سے گزر کر انسان  کی تخلیق  ہونا، اور نباتات کی زندگی وغیرہ ۔

10۔ان آیات  میں آخرت پر مبنی دلائل  برابر کے ہیں  جو یہ واضح کرتی ہیں  کہ جو پیدا کرسکتاہے  وہ اس کا اعادہ بھی کرسکتاہے  اس طرح خلق اور اعادہ کے اصول یکساں ہیں اسی طرح زندگی اور دوبارہ زندگی کی صفت ایک ہے ۔ اور حساب و جزا کے قانون بھی ایک ہے ۔

11۔مسلم کے لیے  مناسب نہیں ہے کہ وہ حسی دلائل  کی اہمیت  سے غافل  رہے کیونکہ  کفار قرآن و سنت  کو نہیں  مانتے تھے  تو ان کو عقلی دلائل سے مناقشہ کرنا پڑے گا جس کو قرآن  نے بھی اہمیت  دی ، دعاۃ کو اس پر چوکنا  رہنا چاہیے۔

12۔ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم۔۔  ان آیات میں اللہ کے وجود کی پختہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں وہ یہ کہ لوگ اللہ کو لے کر  جھگڑا کرتے ہیں جیسے نضر بن حارث اور اسی طرح آخرت  کا  انکار  اور نبوت کا انکار وغیرہ اس طرح وہ دنیا  میں ذلیل ہوا اور آخرت میں نقصان اٹھایا۔

13۔ جو بغیر علم کٹ حجتی کرتاہے  وہ دلیل سے بات  نہیں کرتا، اور نہ ہی کوئی  حجت اور معرفت کا اثر ہوتاہے اور نہ ہی ایسا شخص   کتاب کے ذریعہ اپنے قلب و عقل  کو منور کرپاتا ہے اسے یقین نہیں ہوتا، محض کبر کی وجہ سے ایسا کرتاہے ۔

14۔ اللہ تعالیٰ  تکبر کرنے والوں  کو ایسے ہی نہیں چھوڑتا ان کو   مہلت دی جاتی ہے کیونکہ وہ اور زیادہ  رسوائی  کو اٹھائیں  اور رہا آخرت  کا عذاب تو وہ بہت ہی سخت  اور تکلیف دہ ہوگا اور اللہ  بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

15۔اللہ کی بندگی جو کناروں  پر رہ کرکرتے ہیں  ان کی  بدبختی اور انجام  کو واضح کیا گیا  گویاکہ ایسے لوگوں کا عقیدہ ایک تجارت کی طرح  ہے اگر کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو مطمئن  ہوتے ہیں اور اگر برائی پہنچتی ہے تو گمراہ  اور کفر پر اتر آتے ہیں اور رہے مومن تو وہ اپنے رب کی خالص جذبہ، شکر و صبر  سے عبادت کرتے ہیں ۔

16۔جس کسی کو فتنوں کے درمیان تکلیف پہنچتی  ہے نہ گھبرائے  بلکہ وہ اللہ کی رحمت اور مدد پر یقین رکھے کہ اللہ اس بات پر قادر ہے جس طرح  اس نے اپنے رسول سے وعدہ کیا  اور جس کو اللہ کی مدد پر دنیا اور آخرت میں بھروسہ نہ ہو  اور وہ ناامید ہوجائے  تو وہ چاہے وہ کرے اب کوئی  چیز  اس کی بلاء  کا بدل نہیں ہے ۔

17۔اللہ تعالیٰ نے ابراھیم علیہ السلام   کو حکم دیا کہ کعبہ کو توحید  پر قائم کریں اور شرک  کی گندگی سے پاک کریں تاکہ زمین میں اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہ رہے ۔

18۔حرم مکہ میں تمام لوگوں کی آزادی  ضروری ہے چاہے وہ مکہ والے ہوں یا باہر کے لوگ ہوں  اور کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کسی گناہ کا ارادہ کرے اور جو جان بوجھ کر  ایسا اقدام کرے تو اس کے لیے عذاب الیم ہے ۔

19۔ان الذین کفروا وصدوا  عن سبیل اللہ۔۔  ان آیات میں کفار  کے حیلے اوربہانے بیان کیے گئے ہیں  اور مسجد حرام سے روکنے پر نکیر  کی گئی ہے بلکہ ہر وہ جگہ جو عبادت گاہ ہے  خاص طور پر تین بڑی  مساجد  جن  کی طرف  کوچ کیا جاتاہے شامل ہے ۔

20۔اللہ نے قربانی پیش کرنے کی اجازت ہر شریعت اور ملت میں رکھی ہے اور قربانی پیش کرنا اس کی  ہدایت پر شکر گزاری ہے لہذا ذبح خالص اللہ کے لیے ہونی  چاہیے  اور یہ کہ  ذبح کے وقت اس کا نام لے کیونکہ اللہ ہی خالق ، رازق اور مستحق عبادت ہے ۔

21۔اللہ نے فقراء  کے کھانا کھلانے پر زور دیا جو فقیر و محتاج ہیں اس سے یہ بات واضح  ہوتی ہے کہ معاشرہ کی ذمہ داری  اور تعاون قبول  کیا جائے ، یہ تمام حج کے فوائد ودروس ہیں ۔

22۔وہ مسلمان  جو استطاعت رکھتا ہو اور زاد سفر برداشت کرسکتاہو  اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ حج کے معاملہ میں سستی اور تاخیر کرے کیونکہ اگر وہ اس حالت میں مرا  اس  کا کچھ ہونے والا نہیں ۔

23۔ان اللہ یدافع عن الذین آمنوا۔۔ یہ پہلی آیتیں ہیں جو قتال کی مشروعیت عطا کرتی ہیں جبکہ  اس سے پہلے مکہ میں صبر کرنے کی وصیت اور حکم  دیا جارہاتھا ان کی  کم تعداد کے سبب  اور دین میں فتنہ کے خوف سے ۔ لیکن  جب مسلمان کی قوت  بڑھی اور مدینہ میں آباد ہوگئے تو وہ اپنے اور دین  کا دفاع کرنے کے قابل ہوگئے ۔

24۔قتال  کی مشروعیت کے اہداف  شعائر، عبادات اور مومنین پر ہونے والے ظلم و عدوان سے حفاظت ہے ۔  اس کا مقصد زمین میں  ہلاکت و فساد نہیں،  لوگوں پر ظلم کرنا اور انہیں زبردستی دین میں داخل کرنا نہیں اس طرح  اسلام کے جنگی اہداف دیگر تمام سے بالاتر ہیں، اس سے تہذیب کی بلندی اور اصلاح اور آزادی ملتی ہے ۔

25۔ بنیادی  ہدف اللہ کا بندوں  کے لیے مدد کا یہ ہے  کہ وہ اللہ کی شریعت کو قائم کریں  اور جن باتوں  کا حکم دیا جیسے صلاۃ   کے قائم کرنے ، زکاۃ دینے، بھلائی  کا حکم دینے اور برائی سے روکنے    وغیرہ کو انجام دیں ۔

26۔جو اپنے دل سے نہ سمجھے اور سیدھی راہ اختیار نہ کرے وہ حقیقی اندھا ہے گویا آنکھوں  کا اندھا پن اندھا پن نہیں بلکہ  اصل اندھا پن تو دل کا ہے ۔

27۔اللہ کے عذاب  میں جلدی مچانے والوں کو روکا گیا ۔۔ وان یوما عند ربک کالف سنة مما تعدون ۔ اس کے  بڑے عذاب اور بھوک و غیرہ سے ڈرایاگیا کہ وہ کتنا بڑا  جاہل ہے جو اس کی  جلدی مچاتاہے ۔

28۔قل یا ایھا الناس انما انا لکم نذیر مبین۔۔  رسول ﷺ کی ذمہ داری  یہ ہے کہ آگ سے ڈرائے  اور جنت کی خوشخبری  دے اللہ نے انذار کو تبشیر پر مقدم کیا کیونکہ یہاں پر  سیاق میں مشرکین  کا ذکر ہے اس لیے انذار کو مقدم  کیا گیا۔

29۔اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ جو ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی کرے تواللہ اس کے  لیے مغفرت ،رزق کریم اور جنت  کا وعدہ کرتا ہے ۔

30۔انبیاء سے سہو ہوسکتاہے   اور دنیا  کے امور میں ان کو وسوسہ  آنا کوئی انوکھی بات نہیں اس لیے   کہ وہ بشر ہیں لیکن اللہ نےان  کو رسالت کو پہنچانے  کے معاملے میں خطا سے بچالیا جو وحی کی پختگی  کو واضح کرتی ہے ۔

31۔ اللہ نے دوسری   مرتبہ  قیامت  سے ڈرایا ہے جو اس کی  خطرناکی  پر دلیل ہے اور اس کی  تیاری کرنا ضروری ہے ۔

32۔اللہ نے ہجرت کرنے والے کی فضیلت  بیان کی  اور  ان کے ساتھ  ہمدردی  و مغفرت  اور رزق حسن کا وعدہ کیا  جو ہجرت کی فضیلت  اور اللہ کی اطاعت پر ابھارے جانے کی دلیل ہے ۔

33۔لکل امۃ جعلنا منسکا۔۔  اللہ نے ہر امت کے لیے ایک منہج اور مسلک بنایا ہے،  اللہ نے مسلمانوں  کے لیے  ایک طریقہ زندگی مقرر کیا ہے وہ اس کی  مخالفت نہیں کرسکتے  اس لیے کہ  حق ظاہر ہوگیا ہے اور اسلام کا پیغام  ہی آخری پیغام  ہے جس کی اتباع کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔

34۔جب لوگ باطل پر اتر آئیں تو ان سے بات کرنے کا ادب سکھایا گیا کہ “اللہ اعلم بما تعملون” کہیں  ۔

35۔بت  پرستوں  کے پاس نہ ہی نقلی دلیل ہے اور نہ عقلی دلیل ہے، وہ اپنی خواہشات کی بنا پر  شریعت  بنا لیتے ہیں،   اللہ ان کے تمام افعال سے باخبر ہے اور قیامت کے دن ان کا حساب لے گا۔

36۔مکھی کی مثال چار باتوں کے پیش نظر بیان کی گئی:  1۔ گندگی ۔2۔ کمزوری۔3۔ ناپسندیدگی ۔4۔  کثرت، جب یہ معبود  ایسوں کو دفع نہیں کرسکتے  تو وہ معبود کیسے کہلاتے ہیں؟

37۔انبیاء  کو چننے  کا اختیار  صرف اللہ کو ہے، کوئی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا۔

38۔یا ایھا الذین آمنوا۔۔  اللہ نے مومنین  کو چند باتوں کا پابند بنایا ۔ ایسا کرنے میں ہی ان کی  فلاح  ہے کیونکہ  فلاح اقامت صلاۃ ، ایتاء زکاۃ اور دیگر تکلیفات شرعیہ  میں فلاح ہے۔

39۔ سجدہ کرنے کا حکم اس لیے  دیا گیاکیونکہ   اس میں کامل پستی اور ذلت ہے اور اس سے پہلے کی آیات میں تمام مخلوقات کے سجدہ کرنے کی بات ہے  سوائے  انسانوں  کے اس لیے ان کو پھر سے عبادت اور سجدہ کی طرف بلایا گیا۔

40۔جہاد کو اللہ “حق جہادہ “کے ساتھ مقید  کردیا ۔ عقیدہ  کا دفاع کے لیے پوری  طاقت ، کوشش اور غایت لگانے کی ضرورت ہے اور اسلام کا پرچم اونچا اٹھانے  کے لیے تیاری  کی ضرورت ہے  ۔ ہر مسلمان کو  اپنے  نفس  اور مال کے ذریعہ  کوشش کرنا ضروری ہے ۔

41۔اللہ نے اپنے بندوں پر رحمت  کا ذکر کیا ہے،  ان کی  طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا، ان سے ہر حرج کو دور کردیاگیا۔ یہ ایک آسان دین ہے جس پر رسولﷺ   نے ہم کو چھوڑا ہے جس پر ابراھیم علیہ السلام   تھے۔

42۔اللہ نے اس امت کو تمام امتوں پر گواہ بنا کر شرف عطا کردیا۔ اس بات  کی گواہی  کے تمام  اقوام  کے رسولوں نے ان کی طرف پیغام  پہنچادیا  ، یہ شکر اور حمد کا تقاضہ کرتا ہے ۔

43۔امید لگانا اور مضبوطی سے تھامے رہنا  سوائے اللہ کے کسی اور کے ساتھ  مناسب نہیں و  ہی  سب سے اچھا مولیٰ اور مددگار ہے ۔

سورۃ  الحج میں مناسبت یا  لطائف تفسیر

1۔اس میں ایسے وقت کا ذکر ہے جب کہ  مسلمان کفار قریش کے ظلم و ستم  سے  بچ کر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔مکہ کی زندگی سے ہجرت کا ذکر ہے ۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو مدینہ میں دفاع کے طور پر مدافعت کی اجازت دی گئی ان سارے مراحل کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

2۔اس سورت میں مکہ کا آخری سرا اور مدینہ کا اول سرا کا ذکر ہے جسکی وجہ سے مفسرین میں اختلاف ہے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی۔

3۔سورہ ابراہیم سے لے کر سورہ حج تک اکثر سورتوں میں ابراہیم  علیہ السلام  سے متعلق ڈائرکٹ یا انڈائرکٹ  ذکر ملتا ہے۔

4۔سورہ ابراہیم میں کعبہ کی بنیاد تعمیر کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

5۔سورہ نحل میں سخت آزمائشوں میں اقامت توحید اور امۃ واحدۃ کا ثبوت۔

6۔سورہ بنی اسرائیل – جو قوم ہے بنی اسرائیل اس کا وجود ہی آپ کی نسل سے۔

7۔سورہ کہف میں بنی اسرائیل کے کئی واقعات ذکر کیے گئے ہیں۔

8۔سورہ مریم میں بنی اسرائیل کے واقعات ذکر کیے گئے ہیں۔

9۔سورہ انبیاء  – انبیاء کے متحدہ مشن کا ذکر کیا گیا ہے۔

10۔سورہ حج میں حج کا گہرا تعلق ابراہیم  علیہ السلام سے ۔ (واذن في الناس بالحج)

سورۃ  الحج میں حفظ و تدبر و حدیث برائے تذکیر و تزکیہ اور دعوت و اصلاح

آيت1 : “يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ﴿١﴾يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَـٰكِنَّ عَذَابَ اللَّـهِ شَدِيدٌ” ﴿٢﴾ (سورۃ الحج)

“لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے ۔ جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے، حالانکہ درحقیقت وه متوالے نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے۔”

حدیث: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:‏‏‏‏ “يَا آدَمُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَيُنَادَى بِصَوْتٍ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ بَعْثًا إِلَى النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ أُرَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَحِينَئِذٍ تَضَعُ الْحَامِلُ حَمْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَيَشِيبُ الْوَلِيدُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ سورة الحج آية 2، ‏‏‏‏‏‏فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ حَتَّى تَغَيَّرَتْ وُجُوهُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “مِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْكُمْ وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَبْيَضِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَبَّرْنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَبَّرْنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَبَّرْنَا”. قَالَ أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ:‏‏‏‏ وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى سورة الحج آية 2، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ،‏‏‏‏وَأَبُو مُعَاوِيَةَ 0 سَكْرَى وَمَا هُمْ بِسَكْرَى ۔

حضرت ابوسعید خدری    رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت آدم کو بلائے گا وہ لبیک ربنا وسعدیک کہتے ہوئے آئیں گے خدا کے حکم سے فرشتہ پکارے گا کہ اے آدم! اپنی اولاد میں سے دوزخ کے لیے لاؤ حضرت آدم کہیں گے کتنے آدمی لاؤں؟ فرشتہ کہے گا ہزار میں سے نوسو ننانوے لاؤ یہ وقت ہوگا کہ حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے، جوان بوڑھے ہو جائیں گے، اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي ۔ الخ(الحج : 2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات سن کر صحابہ کے چہرے خوف سے زرد ہو گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تسکین کرتے ہوئے فرمایا کہ :”تم کیوں اس قدر ڈرتے ہو یہ مقدار تو یاجوج ماجوج کے آدمیوں کی ہوگی اور ہزار میں سے ایک تم میں سے ہوگا جیسے سفید بیل کے پہلو میں ایک سیاہ بال ہوتا ہے یا سیاہ بیل میں ایک سفید بال ہوتا ہے اور مجھ کو امید ہے کہ تم سارے بہشتیوں میں چوتھائی حصہ ہو گے اور باقی تین حصوں میں دوسری تمام امتیں ہوں گی۔” یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا آپ نے فرمایا :”نہیں بلکہ تم تہائی حصہ ہوں گے۔” ہم نے پھر تکبیر بلند کی آپ نے فرمایا:” نہیں تم نصف ہوں گے۔” ہم نے پھر تکبیر کہی ۔ ()

()۔صحیح بخاری / کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں / باب : آیت کی تفسیر “اور لوگ تجھے نشہ میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہے” ۔حدیث نمبر: 4741

ماخوذ از  کتاب “اہداف و اسباق قرآن، موضوعات، لطائف تفسیر، تذکیر و ہدایات” از شیخ ارشد بشیر مدنی حفظہ اللہ تعالیٰ، بانی و ڈائرکٹر آسک اسلام پیڈیا ڈاٹ کام،صفحہ 169 تا 173

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.